دل سے شوق رخ نکو نہ گیا
دل سے شوق رخ نکو نہ گیا
جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا
ہر قدم پر تھی اس کی منزل لیک
سر سے سودائے جستجو نہ گیا
سب گئے ہوش و صبر و تاب و تواں
لیکن اے داغ دل سے تو نہ گیا
دل میں کتنے مسودے تھے ولے
ایک پیش اس کے رو بہ رو نہ گیا
سبحہ گرداں ہی میرؔ ہم تو رہے
دست کوتاہ تا سبو نہ گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |