دل سے پوچھو کیا ہوا تھا اور کیوں خاموش تھا

دل سے پوچھو کیا ہوا تھا اور کیوں خاموش تھا
by پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق
318146دل سے پوچھو کیا ہوا تھا اور کیوں خاموش تھاپنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق

دل سے پوچھو کیا ہوا تھا اور کیوں خاموش تھا
آنکھ محو دید تھی اتنا مجھے بس ہوش تھا

وہ بھی کیا تاثیر تھی جس نے ہلائے سب کے دل
کیا بتاؤں وہ مرا ہی نالۂ پر جوش تھا

محفل ساقی میں تھا کچھ اور ہی مستوں کا رنگ
کوئی ساغر ڈھونڈھتا تھا اور کوئی بے ہوش تھا

کیا عجب ہے جائزہ لے مے پرستوں کا کوئی
یاد رکھنا ساقیا مجھ سا بھی اک مے نوش تھا

کیا سمجھ سکتا تھا کوئی تیرے دیوانے کی چپ
جب کسی نے اس سے کچھ پوچھا تو بس خاموش تھا

بے خودی سے نشۂ جام خودی اترا تو پھر
ایک ہی ساغر ملا ایسا کہ میں مدہوش تھا

اک ہمیں کو ساقیا پوچھا نہ تو نے دور میں
ورنہ مے خانہ میں تیرے شور نوشا نوش تھا

کس قدر تھا اشتیاق منزل مقصود اسے
مرنے والے کا جنازہ آج دوشا دوش تھا

زندگی بھر کے گناہوں سے یہ تھی شرم اے اجل
تارک ہستی یہاں سے جب چلا روپوش تھا

غنچے کیوں خاموش آئے گلشن ہستی میں شوقؔ
موسم گل سے مگر خوف خزاں ہم دوش تھا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.