دل عجب جلوۂ امید دکھاتا ہے مجھے

دل عجب جلوۂ امید دکھاتا ہے مجھے
by یاس یگانہ چنگیزی
318427دل عجب جلوۂ امید دکھاتا ہے مجھےیاس یگانہ چنگیزی

دل عجب جلوۂ امید دکھاتا ہے مجھے
شام سے یاسؔ سویرا نظر آتا ہے مجھے

جلوۂ دار و رسن اپنے نصیبوں میں کہاں
کون دنیا کی نگاہوں پہ چڑھاتا ہے مجھے

دل کو لہراتا ہے ہنگامۂ زندان بلا
شور ایذا طلبی وجد میں لاتا ہے مجھے

پائے آزاد ہے زنداں کے چلن سے باہر
بیڑیاں کیوں کوئی دیوانہ پہناتا ہے مجھے

ہنس کے کہتا ہے کہ گھر اپنا قفس کو سمجھو
سبق الٹا مرا صیاد پڑھاتا ہے مجھے

جیسے دوزخ کی ہوا کھا کے ابھی آیا ہے
کس قدر واعظ مکار ڈراتا ہے مجھے

پھٹ پڑیں اب ہی در و بام تو پردہ رہ جائے
فلک خانہ خراب آنکھ دکھاتا ہے مجھے

دیدنی ہے چمن آرائیٔ چشم عبرت
سیر تازہ گل پژمردہ دکھاتا ہے مجھے

ترک مطلب سے ہے مطلب تو دعائیں کیسی
صبح تک کیوں دل بیمار جگاتا ہے مجھے

ننگ محفل مرا زندہ مرا مردہ بھاری
کون اٹھاتا ہے مجھے کون بٹھاتا ہے مجھے

لب دریا کا ہوا میں نہ تہ دریا کا
کون سے گھاٹ یہ دھارا لیے جاتا ہے مجھے

پاؤں سوئے ہیں مگر جاگتے ہیں اپنے نصیب
کیا سمجھ کر جرس گنگ جگاتا ہے مجھے

یاسؔ منزل ہے مری منزل عنقائے کمال
لکھنؤ میں کوئی کیوں ڈھونڈنے آتا ہے مجھے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.