دل لیا جان لی نہیں جاتی
دل لیا جان لی نہیں جاتی
آپ کی دل لگی نہیں جاتی
سب نے غربت میں مجھ کو چھوڑ دیا
اک مری بیکسی نہیں جاتی
کیے کہہ دوں کہ غیر سے ملئے
ان کہی تو کہی نہیں جاتی
خود کہانی فراق کی چھیڑی
خود کہا بس سنی نہیں جاتی
خشک دکھلاتی ہے زباں تلوار
کیوں مرا خون پی نہیں جاتی
لاکھوں ارمان دینے والوں سے
ایک تسکین دی نہیں جاتی
جان جاتی ہے میری جانے دو
بات تو آپ کی نہیں جاتی
تم کہو گے جو روؤں فرقت میں
کہ مصیبت سہی نہیں جاتی
اس کے ہوتے خودی سے پاک ہوں میں
خوب ہے بے خودی نہیں جاتی
پی تھی بیدمؔ ازل میں کیسی شراب
آج تک بے خودی نہیں جاتی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |