دل لے گئی وہ زلف رسا کام کر گئی
دل لے گئی وہ زلف رسا کام کر گئی
کعبہ کو ڈھ گئی یہ بلا کام کر گئی
آیا نہ یار موت مرا کام کر گئی
ناکام ہی رہا میں قضا کام کر گئی
زاہد نے بھی نماز کو اپنی قضا کیا
واللہ ان بتوں کی ادا کام کر گئی
اس کی گلی میں خاک ہماری نہ لے چلے
اپنا کبھی نہ باد صبا کام کر گئی
زاہد کی آنکھ میں تو برہمن کے دل میں ہے
تصویر بت بھی نام خدا کام کر گئی
بیمار عشق کو ہوئی صحت وصال سے
اے جالینوس اک یہ دوا کام کر گئی
نالے سے اپنے آہ رسا رات بڑھ گئی
نیزے سے برچھی اور سوا کام کر گئی
وہ اب تو چھیڑ چھیڑ کے دیتے ہیں گالیاں
شکر خدا کہ اپنی دعا کام کر گئی
شکوہ نہیں ہے کچھ ملک الموت سے مجھے
اک رشک حور آ کے مرا کام کر گئی
لیلیٰ کو ہو گیا تری فریاد کا گمان
اے قیس زنگ کی بھی صدا کام کر گئی
چھنوائی خاک مہرؔ فلک بارگاہ کو
چھوٹی سی ایک چیز بڑا کام کر گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |