دل محبت مکان ہے گویا

دل محبت مکان ہے گویا
by قربان علی سالک بیگ

دل محبت مکان ہے گویا
آرزو کا جہان ہے گویا

خاک میں مل چکے ہم اور اس کو
آج تک بھی گمان ہے گویا

میرے آزار دینے کو وہ شوخ
دوسرا آسمان ہے گویا

کھول دے منہ خموں کے پیر مغاں
آج ہی امتحان ہے گویا

پاؤں آگے نہ اٹھ سکے واں سے
اس گلی کا نشان ہے گویا

تیری تصویر کیوں نہ بول اٹھے
اس میں عاشق کی جان ہے گویا

تیرا چپ چپ یہ بیٹھنا سالکؔ
اک طرح کا بیان ہے گویا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse