دل مرا تیر ستم گر کا نشانہ ہو گیا

دل مرا تیر ستم گر کا نشانہ ہو گیا
by بھارتیندو ہریش چندر

دل مرا تیر ستم گر کا نشانہ ہو گیا
آفت جاں میرے حق میں دل لگانا ہو گیا

ہو گیا لاغر جو اس لیلیٰ ادا کے عشق میں
مثل مجنوں حال میرا بھی فسانہ ہو گیا

خاکساری نے دکھایا بعد مردن بھی عروج
آسماں تربت پر میرے شامیانہ ہو گیا

خواب غفلت سے ذرا دیکھو تو کب چونکے ہیں ہم
قافلہ ملک عدم کو جب روانہ ہو گیا

فصل گل میں بھی رہائی کی نہ کچھ صورت ہوئی
قید میں صیاد مجھ کو اک زمانہ ہو گیا

دل جلایا صورت پروانہ جب سے عشق میں
فرض تب سے شمع پر آنسو بہانہ ہو گیا

آج تک اے دل جواب خط نہ بھیجا یار نے
نامہ بر کو بھی گئے کتنا زمانہ ہو گیا

پاس رسوائی سے دیکھو پاس آ سکتے نہیں
رات آئی نیند کا تم کو بہانہ ہو گیا

ہو پریشانی سر مو بھی نہ زلف یار کو
اس لیے میرا دل صدچاک شانہ ہو گیا

بعد مردن کون آتا ہے خبر کو اے رساؔ
ختم بس کنج لحد تک دوستانہ ہو گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse