دل میں اتری ہے نگہ رہ گئیں باہر پلکیں
دل میں اتری ہے نگہ رہ گئیں باہر پلکیں
کیا خدنگ نگہ یار کی ہیں پر پلکیں
فرط حیرت سے یہ بے حس ہیں سراسر پلکیں
کہ ہوئیں آئنہ چشم کی جوہر پلکیں
یہ درازی ہے کہ وہ شوخ جدھر آنکھ اٹھائے
جا پہنچتی ہیں نگاہوں کے برابر پلکیں
کیا تماشا ہے کہ ڈالے مرے دل میں سوراخ
اور خوں میں نہ ہوئیں ان کی کبھی تر پلکیں
نرگس اس غیرت گلزار سے کیا آنکھ ملائے
آنکھ بھی وہ کہ نہیں جس کو میسر پلکیں
ہے غم مرگ عدو بھی بت کافر کا بناؤ
قطرۂ اشک سے ہیں رشتۂ گوہر پلکیں
چاٹ دیتا ہے ترا دل انہیں خوں ریزی کی
تیز کرتی ہیں اسی سنگ پہ خنجر پلکیں
لی گئیں دل کو وہ دزدیدہ نگاہیں اب یاں
کیا دھرا ہے جو چڑھا لاتی ہیں لشکر پلکیں
کینہ کچھ شرط نہیں ان کی دل آزاری کو
نیش عقرب ہیں تری شوخ ستم کر پلکیں
ہے یہی گریۂ خونیں تو کسی دن ناظمؔ
یوں ہی رہ جائیں گی آپس میں جھپک کر پلکیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |