دل میں اگر نہ عشق و محبت کی چاہ ہو
دل میں اگر نہ عشق و محبت کی چاہ ہو
نالہ نہ درد ہو نہ فغاں ہو نہ آہ ہو
رسوا نہ اعتبار تغافل کو کیجیے
کیا فائدہ کہ پرسش دل گاہ گاہ ہو
دشمن سے پوچھتا ہوں نشان حریم ناز
میری طرح سے کوئی نہ گم کردہ راہ ہو
راہ جنوں میں مجھ کو کسی سے نہیں ہے کام
بس میں ہوں اور اک دل شورش پناہ ہو
کر اب تو فکر حسن عمل کوچ ہے قریب
رستہ کٹھن ہے ساتھ میں کچھ زاد راہ ہو
توہین شان عفو ہے عصیاں سے اجتناب
یعنی گناہ گار ہے جو بے گناہ ہو
دنیا میں ایسے لوگوں سے پالا پڑے نہ شوقؔ
ظاہر ہو جن کا صاف تو باطن سیاہ ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |