دل میں بھرا ز بسکہ خیال شراب تھا
دل میں بھرا ز بسکہ خیال شراب تھا
مانند آئنے کے مرے گھر میں آب تھا
موجیں کرے ہے بحر جہاں میں ابھی تو تو
جانے گا بعد مرگ کہ عالم حباب تھا
اگتے تھے دست بلبل و دامان گل بہم
صحن چمن نمونۂ یوم الحساب تھا
ٹک دیکھ آنکھیں کھول کے اس دم کی حسرتیں
جس دم یہ سوجھے گی کہ یہ عالم بھی خواب تھا
دل جو نہ تھا تو رات ز خود رفتگی میں میرؔ
گہہ انتظار و گاہ مجھے اضطراب تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |