دل میں دل دار نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
دل میں دل دار نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
ادھر ادھر میں دواں تھا مجھے معلوم نہ تھا
سر بسر انفس و آفاق میں ہے اس کا ظہور
پردہ اس رخ کا عیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
سہل سمجھا تھا میں حالاں کہ یہ عشق ظالم
وقف خونین جگراں کا تھا مجھے معلوم نہ تھا
بعد مدت دل گمراہ سے میں نے جو ملا
کہا رو رو کے کہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
مشرب عاشق بے نام و نشاں میں آگاہؔ
لا مکاں عین مکاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |