دل میں مرغان چمن کے تو گماں اور ہی ہے
دل میں مرغان چمن کے تو گماں اور ہی ہے
پر دل زار کا انداز فغاں اور ہی ہے
قد نوخیز نہیں آفت جاں اور ہی ہے
جس پہ دل اپنا گیا ہے وہ جواں اور ہی ہے
ہم جہاں رہتے ہیں یارو وہ جہاں اور ہی ہے
وہ جگہ اور ہی ہے اور وہ مکاں اور ہی ہے
شفقی رنگ پہ مت بھولیو اپنے اے ابر
چشم خشک اور مژۂ اشک فشاں اور ہی ہے
بدن آغشتہ بخوں ہونے پہ موقوف نہیں
زخمیٔ ناوک مژگاں کا نشاں اور ہی ہے
گو کہ اوروں کی ہوئیں سرمے سے آنکھیں روشن
سرمۂ بینش صاحب نظراں اور ہی ہے
گرچہ رکھتے ہیں نزاکت یہ سبھی مو کمراں
وہ نزاکت ہے جدی اور وہ میاں اور ہی ہے
مصحفیؔ گرچہ یہ سب کہتے ہیں ہم سے بہتر
اپنی پر ریختہ گوئی کی زباں اور ہی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |