دل میں پھر وصل کے ارمان چلے آتے ہیں

دل میں پھر وصل کے ارمان چلے آتے ہیں
by بیخود دہلوی

دل میں پھر وصل کے ارمان چلے آتے ہیں
میرے روٹھے ہوئے مہمان چلے آتے ہیں

ان کے آتے ہی ہوا حسرت و ارماں کا ہجوم
آج مہمان پہ مہمان چلے آتے ہیں

آپ ہوں ہم ہوں مئے ناب ہو تنہائی ہو
دل میں رہ رہ کے یہ ارمان چلے آتے ہیں

اس نے یہ کہہ کے مجھے دور ہی سے روک دیا
آپ سے جان نہ پہچان چلے آتے ہیں

روٹھ بیٹھے ہیں مگر چھیڑ چلی جاتی ہے
کبھی پیغام کبھی پان چلے آتے ہیں

یہ رہا حضرت بیخودؔ کا مکاں آؤ چلیں
ابھی دم بھر میں مری جان چلے آتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse