دل میں ہے اس کے مدعی کا عشق
دل میں ہے اس کے مدعی کا عشق
خاک سمجھے ہے وہ کسی کا عشق
اچھی صورت کا ہوں میں دیوانہ
نے مجھے حور نے پری کا عشق
کیوں خفا ہم سے ہو کہ ہوتا ہے
آدمی کو ہی آدمی کا عشق
جان جاتی ہے ہر ادا پہ چلی
نہ سنا ایسی رفتگی کا عشق
خوب روز طلب ہیں اور ہمیں
خار رکھتا ہے مفلسی کا عشق
اپنے موسم میں کیسا ہوتا ہے
نونہالوں کو سرکشی کا عشق
مصحفیؔ اک غزل تو اور بھی لکھ
گر تجھے ہے رقم زنی کا عشق
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |