دل پر خوں ہے یہاں تجھ کو گماں ہے شیشہ
دل پر خوں ہے یہاں تجھ کو گماں ہے شیشہ
شیخ کیوں مست ہوا ہے تو کہاں ہے شیشہ
شیشہ بازی تو تنک دیکھنے آ آنکھوں کی
ہر پلک پر مرے اشکوں سے رواں ہے شیشہ
رو سفیدی ہے نقاب رخ شور مستی
ریش قاضی کے سبب پنبہ دہاں ہے شیشہ
منزل مستی کو پہنچے ہے انہیں سے عالم
نشۂ مے بلد و سنگ نشاں ے شیشہ
درمیاں حلقۂ مستاں کے شب اس کی جا تھی
دور ساغر میں مگر پیر مغاں ہے شیشہ
جا کے پوچھا جو میں یہ کارگہ مینا میں
دل کی صورت کا بھی اے شیشہ گراں ہے شیشہ
کہنے لاگے کہ کدھر پھرتا ہے بہکا اے مست
ہر طرح کا جو تو دیکھے ہے کہ یاں ہے شیشہ
دل ہی سارے تھے پہ اک وقت میں جو کر کے گداز
شکل شیشے کی بنائے ہیں کہاں ہے شیشہ
جھک گیا دیکھ کے میں میرؔ اسے مجلس میں
چشم بد دور طرحدار جواں ہے شیشہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |