دل پہنچا ہلاکی کو نپٹ کھینچ کسالا
دل پہنچا ہلاکی کو نپٹ کھینچ کسالا
لے یار مرے سلمہ اللہ تعالی
کچھ میں نہیں اس دل کی پریشانی کا باعث
برہم ہی مرے ہاتھ لگا تھا یہ رسالا
معمور شرابوں سے کبابوں سے ہے سب دیر
مسجد میں ہے کیا شیخ پیالہ نہ نوالا
گزرے ہے لہو واں سر ہر خار سے اب تک
جس دشت میں پھوٹا ہے مرے پاؤں کا چھالا
گر قصد ادھر کا ہے تو ٹک دیکھ کے آنا
یہ دیر ہے زہاد نہ ہو خانۂ خالا
جس گھر میں ترے جلوے سے ہو چاندنی کا فرش
واں چادر مہتاب ہے مکڑی کا سا جالا
دشمن نہ کدورت سے مرے سامنے ہو جو
تلوار کے لڑنے کو مرے کیجو حوالہ
ناموس مجھے صافی طینت کی ہے ورنہ
رستم نے مری تیغ کا حملہ نہ سنبھالا
دیکھے ہے مجھے دیدۂ پر خشم سے وہ میرؔ
میرے ہی نصیبوں میں تھا یہ زہر کا پیالا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |