دل چرانا یہ کام ہے تیرا
دل چرانا یہ کام ہے تیرا
لے گیا ہے تو نام ہے تیرا
ہے قیامت بپا کہ جلوے میں
قامت خوش خرام ہے تیرا
جس نے عالم کیا ہے زیر و زبر
یہ خط مشک فام ہے تیرا
دید کرنے کو چاہئیں آنکھیں
ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا
کس کا یہ خوں کیے تو آتا ہے
دامن افشاں تمام ہے تیرا
ہو نہ ہو تو ہماری مجلس میں
تذکرہ صبح و شام ہے تیرا
تیغ ابرو ہمیں بھی دے اک زخم
سر پہ عالم کے دام ہے تیرا
تو جو کہتا ہے مصحفیؔ ادھر آ
مصحفیؔ کیا غلام ہے تیرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |