دل چرا لے گئی دزدیدہ نظر دیکھ لیا

دل چرا لے گئی دزدیدہ نظر دیکھ لیا
by بیخود دہلوی

دل چرا لے گئی دزدیدہ نظر دیکھ لیا
ہم نہ کہتے تھے کہ اس چور نے گھر دیکھ لیا

بندہ پرور غم فرقت کا اثر دیکھ لیا
داغ دل دیکھ لیا داغ جگر دیکھ لیا

قد بھی کم عمر بھی کم مشق ستم اور بھی کم
کر چکے قتل مجھے جائیے گھر دیکھ لیا

شکوے کے ساتھ لگاوٹ بھی چلی جاتی ہے
جب کیا کچھ تو کنکھیوں سے ادھر دیکھ لیا

دادخواہوں پہ نئی حشر میں آفت آئی
صف کی صف لوٹ گئی اس نے جدھر دیکھ لیا

قتل عشاق پہ لو اور اٹھاؤ خنجر
جھک گئی بار نزاکت سے کمر دیکھ لیا

نہ چھٹا تم سے یہ مے خانے کا رستہ بیخودؔ
منہ چھپائے ہوئے جاتے ہو کدھر دیکھ لیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse