دل کا معاملہ جو سپرد نظر ہوا

دل کا معاملہ جو سپرد نظر ہوا
by مضطر خیرآبادی

دل کا معاملہ جو سپرد نظر ہوا
دشوار سے یہ مرحلہ دشوار تر ہوا

ابھرا ہر اک خیال کی تہہ سے ترا خیال
دھوکا تری صدا کا ہر آواز پر ہوا

راہوں میں ایک ساتھ یہ کیوں جل اٹھے چراغ
شاید ترا خیال مرا ہم سفر ہوا

سمٹی تو اور پھیل گئی دل میں موج درد
پھیلا تو اور دامن غم مختصر ہوا

لہرا کے تیری زلف بنی اک حسین شام
کھل کر ترے لبوں کا تبسم سحر ہوا

پہلی نظر کی بات تھی پہلی نظر کے ساتھ
پھر ایسا اتفاق کہاں عمر بھر ہوا

دل میں جراحتوں کے چمن لہلہا اٹھے
مضطرؔ جب اس کے شہر سے اپنا گزر ہوا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse