دل کشتۂ نظر ہے محروم گفتگو ہوں

دل کشتۂ نظر ہے محروم گفتگو ہوں
by عزیز لکھنوی

دل کشتۂ نظر ہے محروم گفتگو ہوں
سمجھو مرے اشارے میں سرمہ در گلو ہوں

مدت سے کھو گیا ہوں سرگرم جستجو ہوں
اپنا ہی مدعا ہوں اپنی ہی آرزو ہوں

صورت سوال ہوں میں پوچھو نہ میرا مطلب
میں اپنے مدعا کی تصویر ہو بہ ہو ہوں

ہے دل میں جوش حسرت رکتے نہیں ہیں آنسو
رستی ہوئی صراحی ٹوٹا ہوا سبو ہوں

زخموں سے دل کا عالم کیا پوچھتے ہو کیا ہے
گلزار بے خزاں ہوں دنیائے رنگ و بو ہوں

جلوے حجاب افگن آنکھیں ہلاک حسرت
تو محو پردہ داری میں وقف جستجو ہوں

پامال یوں ہوا ہوں پنہاں ہے مجھ میں عالم
ایک مشت خاک ہو کر صحرائے آرزو ہوں

رخ سے کفن ہٹا دو کیا پوچھتے ہیں پوچھیں
پردے میں خامشی کے سرگرم گفتگو ہوں

کس سے عزیزؔ رکھوں امید دوستی کی
سرکش ہے نفس جب تک اپنا ہی میں عدو ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse