دل کو مٹنے کا نشاں رہتا ہے

دل کو مٹنے کا نشاں رہتا ہے
by عابد علی عابد

دل کو مٹنے کا نشاں رہتا ہے
آگ بجھنے پہ دھواں رہتا ہے

ہاں سلامت رہو رندو تم پر
کچھ رفاقت کا گماں رہتا ہے

شعلے یوں اٹھتے ہیں گلزاروں سے
کہ بہاراں کا سماں رہتا ہے

عاشقی مہر بلب رہتی ہے
مدعی محو بیاں رہتا ہے

سب خداؤں کی خدائی کا شعور
دل انساں پہ گراں رہتا ہے

تجھ پہ مخفی ہے جو مجھ پر گزری
تو قریب رگ جاں رہتا ہے

تم کہاں رہتے ہو عابدؔ مری جاں
دل تو رہتا ہے جہاں رہتا ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse