دل کھوٹا ہے ہم کو اس سے راز عشق نہ کہنا تھا

دل کھوٹا ہے ہم کو اس سے راز عشق نہ کہنا تھا
by شوق قدوائی

دل کھوٹا ہے ہم کو اس سے راز عشق نہ کہنا تھا
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے اتنا سمجھے رہنا تھا

کیوں ہنستے ہو میں جو برہنہ آج جنوں کے ہاتھوں ہوں
کچھ دن گزرے میں نے بھی بھی رنگ لباس اک پہنا تھا

نزع کے وقت آئے ہو تم اب پوچھ رہے ہو کیا مجھ سے
حالت میری سب کہہ گزری جو کچھ تم سے کہنا تھا

آ کے گیا وہ رویا کین یہ حرج ہوا نظارے میں
آنکھیں کچھ ناسور نہیں تھیں جن کو ہر دم بہنا تھا

ہمت ہارے جی دے بیٹھے سب لذت کھوئی اے شوقؔ
مرنے کی جلدی ہی کیا تھی عشق کا غم کچھ سہنا تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse