دل کیوں تپاں ہے کوچۂ دل دار دیکھ کر

دل کیوں تپاں ہے کوچۂ دل دار دیکھ کر
by ثاقب لکھنوی

دل کیوں تپاں ہے کوچۂ دل دار دیکھ کر
آگے بڑھوں گا چرخ کی رفتار دیکھ کر

خوش ہو سکا نہ حال دل زار دیکھ کر
جلتا ہے غیر میری شب تار دیکھ کر

سمجھے نہ آپ دیدۂ خوں بار دیکھ کر
کیا کیجئے گا حال دل زار دیکھ کر

صیاد داغ دل نہ سمجھنا کہ چلتے وقت
گلشن کے پھول لایا ہوں دو چار دیکھ کر

طے کر کے آج خانہ بدوشی کی منزلیں
بیٹھا ہوں اس کا سایۂ دیوار دیکھ کر

کچھ کچھ زمانہ جان گیا کار حسن و عشق
منصور کو جہان میں سردار دیکھ کر

وقف زبان اہل حسد ہے لہو مرا
خوش ہو رہا ہوں وادیٔ پر خار دیکھ کر

پتھر نہیں کہ طور کے دور آزمائے جائیں
اے برق حسن حال دل زار دیکھ کر

اب دہر روشناس وفا و جفا ہوا
میرے گلے پر آپ کی تلوار دیکھ کر

محشر میں کوئی پوچھنے والا تو مل گیا
رحمت بڑھی ہے مجھ کو گنہ گار دیکھ کر

ہے روشنی قفس میں مگر سوجھتا نہیں
ابر سیاہ جانب گلزار دیکھ کر

روتا ہوں شام غم میں دل گم شدہ کو میں
یاد آ رہی ہے شمع شب تار دیکھ کر

چلئے مگر خیال رہے عمر دہر کا
تھم جائے آسماں نہ یہ رفتار دیکھ کر

روتا ہوں وقت نالہ گزرنے سے اور بھی
شب کو طلوع صبح کے آثار دیکھ کر

بس ایک دن کی بات ہے اے عشق لازوال
میں کیا کروں گا مصر کا بازار دیکھ کر

کیا تھا کہ ایسے وقت میں صاحب دلان حشر
دیکھا کئے مجھے تری تلوار دیکھ کر

صد چاک دل کا ذکر نہ بھولا میں دیر میں
تسبیح یاد آ گئی زنار دیکھ کر

ٹوٹے ہیں شیشہ ہائے دل اتنے کہ اہل درد
رکھتے ہیں پاؤں خاک پہ سو بار دیکھ کر

صیاد کس جگہ پہ قفس ہے کہ دل مرا
در ہو رہا ہے باغ کی دیوار دیکھ کر

ان دوستوں میں وہ نہ ہوں یا رب جو وقت دید
بیمار ہو گئے رخ بیمار دیکھ کر

وہ کیا سمجھ سکیں گے نشیب و فراز دہر
جو چل رہے ہیں راہ کو ہموار دیکھ کر

کہتے ہیں دل لگی مری شام فراق کو
اچھا یوں ہی سہی مگر اک بار دیکھ کر

ثاقبؔ عجب نہیں کہ سر طور امتحاں
غش دل کو آئے جلو اشعار دیکھ کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse