دل کی طرف کچھ آہ سے دل کا لگاؤ ہے
دل کی طرف کچھ آہ سے دل کا لگاؤ ہے
ٹک آپ بھی تو آئیے یاں زور باؤ ہے
اٹھتا نہیں ہے ہاتھ ترا تیغ جور سے
ناحق کشی کہاں تئیں یہ کیا سبھاؤ ہے
باغ نظر ہے چشم کے منظر کا سب جہاں
ٹک ٹھہرو یاں تو جانو کہ کیسا دکھاؤ ہے
تقریب ہم نے ڈالی ہے اس سے جوئے کی اب
جو بن پڑے ہے ٹک تو ہمارا ہی داؤ ہے
ٹپکا کرے ہے آنکھ سے لوہو ہی روز و شب
چہرے پہ میرے چشم ہے یا کوئی گھاؤ ہے
ضبط سرشک خونیں سے جی کیونکے شاد ہو
اب دل کی طرف لوہو کا سارا بہاؤ ہے
اب سب کے روزگار کی صورت بگڑ گئی
لاکھوں میں ایک دو کا کہیں کچھ بناؤ ہے
چھاتی کے میری سارے نمودار ہیں یہ زخم
پردہ رہا ہے کون سا اب کیا چھپاؤ ہے
عاشق کہیں جو ہو گے تو جانو گے قدر میرؔ
اب تو کسی کے چاہنے کا تم کو چاؤ ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |