دل کی ہر لرزش مضطر پہ نظر رکھتے ہیں
دل کی ہر لرزش مضطر پہ نظر رکھتے ہیں
وہ میری بے خبری کی بھی خبر رکھتے ہیں
درد میں لطف خلش کیف کشش پاتا ہوں
کیا وہ پھر عزم تماشائے جگر رکھتے ہیں
جس طرف دیکھ لیا پھونک دیا طور مجاز
یہ ترے دیکھنے والے وہ نظر رکھتے ہیں
خود تغافل نے دیا مژدۂ بیداد مجھے
اللہ اللہ مرے نالے بھی اثر رکھتے ہیں
بے بسی دیکھ یہ سو بار کیا عہد کہ اب
تجھ سے امید نہ رکھیں گے مگر رکھتے ہیں
ہے ترے در کے سوا کوئی ٹھکانا اپنا
کیا کہیں تیرے اجاڑے ہوئے گھر رکھتے ہیں
کوئی اس جبر تمنا کی بھی حد ہے فانیؔ
ہم شب ہجر میں امید سحر رکھتے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |