دل کے ہر جزو میں جدائی ہے
دل کے ہر جزو میں جدائی ہے
کیا بلا وصل کی سمائی ہے
نارسائی سر رسائی ہے
ضعف کی طاقت آزمائی ہے
جام و مینا پہ نور برسے ہے
کیا گھٹا مے کدے پہ چھائی ہے
یوں تو وہ عالم آشنا ہے مگر
اک مجھی سے ذرا لڑائی ہے
تو ملا غیر سے کہ خاک میں ہم
عاقبت ہر طرح صفائی ہے
تم جدا غیر سے ہوئے تھے کب
واجبی طعن بے وفائی ہے
اے قلقؔ ہم سے تو ملا کر یار
خالص الفت میں کیا برائی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |