دل کے ہوتے بھی کہیں درد جدا ہوتا ہے

دل کے ہوتے بھی کہیں درد جدا ہوتا ہے
by ثاقب لکھنوی
299507دل کے ہوتے بھی کہیں درد جدا ہوتا ہےثاقب لکھنوی

دل کے ہوتے بھی کہیں درد جدا ہوتا ہے
اک فقط موت کے آ جانے سے کیا ہوتا ہے

ظلم سے ذکر وفا اور سوا ہوتا ہے
ان کی ہر ایک برائی میں بھلا ہوتا ہے

شہدا نعمت دنیا کی طلب بھول گئے
خون کے گھونٹ میں ایسا ہی مزا ہوتا ہے

خود فراموشی الفت ہے علاج غم دہر
بے خبر ہوش میں آنا ہی برا ہوتا ہے

امتحاں گاہ تری محفل دل کش ہے مگر
میں بھی دیکھوں کہ کوئی دل کے سوا ہوتا ہے

تم سے کہتا ہوں مرا خون مرے دل پہ سہی
رسم دنیا ہے کہ اپنوں سے گلا ہوتا ہے

بزم سے اٹھ تو چلا میں کہ محل تھا لیکن
رونے والوں سے بھلا کوئی خفا ہوتا ہے

دیکھ ہی لیتے ہیں سب ناز و ادا کی صورت
آئنہ آپ کا نقش کف پا ہوتا ہے

نالۂ دل کے اثر کا نہ کرو مجھ سے گلہ
مجھ کو کیا علم کہ کس طرح رسا ہوتا ہے

توبہ توبہ ہے یہی عشق کی باطل نظری
سنگ بت خانے میں آتے ہی خدا ہوتا ہے

کیا سبب کچھ تجھے معلوم ہے اے ابر بہار
دل کے مرجھانے سے کیوں زخم ہرا ہوتا ہے

وہ کہیں یا نہ کہیں میں ہوں اثر سے واقف
بول اٹھتا ہے وہ نالہ جو رسا ہوتا ہے

روشنی دن کی ابھی ہے کہ ہیں کھوئے ہوئے ہوش
دیکھنا ہے شب تاریک میں کیا ہوتا ہے

ہجر کے درد کو بڑھنے دے کہ ہے مژدۂ وصل
وہی گھٹتا ہے جہاں میں جو سوا ہوتا ہے

بد نصیبی ہو تو ہر خوب کی خوبی ہے فضول
صبح کا وقت ستاروں کو برا ہوتا ہے

دل تو دل سر بھی کبھی ہوتا ہے ممنون فراق
جس میں ہے عشق یہ سودا وہ جدا ہوتا ہے

مرے راضی بہ رضا ہونے سے سب راضی ہیں
ورنہ جو ہے وہ شکایت سے خفا ہوتا ہے

اولیں مرحلۂ عشق ہے جب حسرت و موت
کوئی بتلائے کہ پھر بعد میں کیا ہوتا ہے

بیم و امید سے کس طرح نکل جاؤں کہ دل
نہ ٹھہرتا ہے جہاں میں نہ فنا ہوتا ہے

منتظر نزع میں چپ ہے تو اسے چپ نہ سمجھ
دم کا رک رک کے نکلنا بھی گلا ہوتا ہے

شب تاریک میں نکلا تو ہے دیکھوں ثاقبؔ
نارسا رہتا ہے نالہ کہ رسا ہوتا ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.