دل ہے آئینۂ حیرت سے دو چار آج کی رات

دل ہے آئینۂ حیرت سے دو چار آج کی رات
by عابد علی عابد

دل ہے آئینۂ حیرت سے دو چار آج کی رات
غم دوراں میں ہے عکس غم یار آج کی رات

کوئی منصور سے جا کر یہ کہو ہم نفسو
ہوں بہ تعزیر خموشی سر دار آج کی رات

غم کے محور پہ ہیں ٹھہرے ہوئے افلاک و نجوم
میری محفل میں نہیں وقت کو بار آج کی رات

نہ مکاں آج ہے ثابت نہ زماں ہے سیار
نہ خزاں شعبدہ آرا نہ بہار آج کی رات

کبھی فردوس گل و لالہ تھی جو کشت خیال
اس سے بے ساختہ اگتے ہیں شرار آج کی رات

بوئے خوں آتی ہے صحرائے تمنا سے مجھے
کھیلتا ہوں دل وحشی کا شکار آج کی رات

تجھے معلوم ہے عابدؔ کہ بیاض دل پر
ناخن غم نے کئے نقش و نگار آج کی رات

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse