دل ہے مشتاق جدا آنکھ طلب گار جدا

دل ہے مشتاق جدا آنکھ طلب گار جدا
by بیخود دہلوی

دل ہے مشتاق جدا آنکھ طلب گار جدا
خواہش وصل جدا حسرت دیدار جدا

زاہدوں سے نہ بنی حشر کے دن بھی یارب
وہ کھڑے ہیں تری رحمت کے طلب گار جدا

جی جلانے کو ستانے کو مٹانے کو مجھے
وہ جدا غیر جدا چرخ ستم گار جدا

بجلیاں حضرت موسیٰ پہ گریں دو اک بار
شعلۂ شوق جدا شعلۂ دیدار جدا

ہو گئے وہ سحر وصل یہ کہہ کر رخصت
تجھ سے کرتا ہے مجھے چرخ ستم گار جدا

قتل کرتے ہی مجھے جلوہ نمائی بھی ہوئی
در پہ ہنگامہ الگ ہے پس دیوار جدا

زاہدوں کی تری رحمت پہ چڑھائی ہے الگ
ٹولیاں باندھ کر آئے ہیں گنہ گار جدا

وضع کا پاس بھی ہے بیخودؔ مے خوار ضرور
کاگ بوتل سے نہ کیجئے سر بازار جدا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse