دم یار تا نزع بھر لیجئے
دم یار تا نزع بھر لیجئے
سخیؔ زندگی تک تو مر لیجئے
دیا دل تو کہنے لگے پھینک کر
کلیجہ میں اپنے یہ دھر لیجئے
مری لاغری پر تو ہنستے ہیں آپ
کمر کی تو اپنی خبر لیجئے
اجل آئے پیچھا چھٹتے شہر کا
کہیں چل کے جنگل میں گھر لیجئے
سخیؔ ہجر جاناں میں کھانا کہاں
غم و درد سے پیٹ بھر لیجئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |