دنیا میں بقا نہیں کسی کو
دنیا میں بقا نہیں کسی کو
مرنا اک روز ہے سبھی کو
وہ کون ہے جو ہے عیب سے پاک
کیا کوئی برا کہے کسی کو
معلوم ہے وعدے کی حقیقت
بھلا لیتے ہیں اپنے جی کو
خود نور خدا ہو تم میں پیدا
دل سے کھو دو اگر خودی کو
سو عیبوں کا ایک عیب ہے یہ
افلاس خدا نہ دے کسی کو
مشکل نہیں کوئی کام لیکن
ہمت لازم ہے آدمی کو
سچ کہہ دے کہ ہے قصور کس کا
منصف میں نے کیا تجھی کو
مانا کہ شراب چھوڑی کیفیؔ
ایسا تو کہو نہ مے کشی کو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |