دن نہیں رات نہیں صبح نہیں شام نہیں
دن نہیں رات نہیں صبح نہیں شام نہیں
وقت ملنے کا مگر داخل ایام نہیں
مثل عنقا مجھے تم دور سے سن لو ورنہ
ننگ ہستی ہوں مری جائے بجز نام نہیں
خطر راہ وفا بلکہ بہت دور کھنچا
عمر گزری کہ بہم نامہ و پیغام نہیں
راز پوشی محبت کے تئیں چاہیے ضبط
سو تو بے تابئ دل بن مجھے آرام نہیں
بے قراری جو کوئی دیکھے ہے سو کہتا ہے
کچھ تو ہے میرؔ کہ اک دم تجھے آرام نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |