دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے

دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے
by عابد علی عابد

دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے
سانپ یادوں کے مہکتے ہوئے ڈسنے آئے

وہ کڑی دھوپ کے دن وہ تپش راہ وفا
وہ سواد شب گیسو کے گھنیرے سائے

دولت طبع سخن گو ہے امانت اس کی
جب تری چشم سخن ساز طلب فرمائے

جستجوئے غم دوراں کو خرد نکلی تھی
کہ جنوں نے غم جاناں کے خزینے پائے

سب مجھے مشورۂ ترک وفا دیتے ہیں
ان کا ایما بھی ہو شامل تو مزہ آ جائے

کیا کہوں دل نے کہاں سینت کے رکھا ہے اسے
نہ کبھی بھولنے پاؤں نہ مجھے یاد آئے

میں نے حافظ کی طرح طے یہ کیا ہے عابدؔ
بعد ازیں مے نہ خورم بے کف بزم آرائے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse