دوبارہ دل میں کوئی انقلاب ہو نہ سکا

دوبارہ دل میں کوئی انقلاب ہو نہ سکا
by ناطق لکھنوی

دوبارہ دل میں کوئی انقلاب ہو نہ سکا
تمہاری پہلی نظر کا جواب ہو نہ سکا

کمال نور زوال حجاب ہو نہ سکا
وہ بے نقاب کبھی بے نقاب ہو نہ سکا

دل تپیدہ ہوا بزم حسن سے واپس
نظر ٹھہر نہ سکی انتخاب ہو نہ سکا

روش بدل گئی تیور ترے نہیں بدلے
قیامت آئی مگر انقلاب ہو نہ سکا

کہاں دل اور کہاں دل کے آئینے کی ادا
غرض سوال سے بہتر جواب ہو نہ سکا

مرے سوال پہ اس نے نظر جو کی نیچی
پھر اس کا مجھ سے جواب الجواب ہو نہ سکا

جلال رعب ہے ناطقؔ جمال پر اس کے
وہ بے نقاب کبھی بے نقاب ہو نہ سکا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse