دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
باقی ہے موت ہی دل بے مدعا کے بعد
تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد
اک شہر آرزو پہ بھی ہونا پڑا خجل
ھل من مزید کہتی ہے رحمت دعا کے بعد
لذت ہنوز مائدۂ عشق میں نہیں
آتا ہے لطف جرم تمنا سزا کے بعد
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
غیروں پہ لطف ہم سے الگ حیف ہے اگر
یہ بے حجابیاں بھی ہوں عذر حیا کے بعد
ممکن ہے نالہ جبر سے رک بھی سکے اگر
ہم پر تو ہے وفا کا تقاضا جفا کے بعد
ہے کس کے بل پہ حضرت جوہرؔ یہ روکشی
ڈھونڈیں گے آپ کس کا سہارا خدا کے بعد
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |