دو دن سے کچھ بنی تھی سو پھر شب بگڑ گئی
دو دن سے کچھ بنی تھی سو پھر شب بگڑ گئی
صحبت ہماری یار سے بے ڈھب بگڑ گئی
واشد کچھ آگے آہ سی ہوتی تھی دل کے تئیں
اقلیم عاشقی کی ہوا اب بگڑ گئی
گرمی نے دل کی ہجر میں اس کے جلا دیا
شاید کہ احتیاط سے یہ تب بگڑ گئی
خط نے نکل کے نقش دلوں کے اٹھا دیئے
صورت بتوں کی اچھی جو تھی سب بگڑ گئی
باہم سلوک تھا تو اٹھاتے تھے نرم گرم
کاہے کو میرؔ کوئی دبے جب بگڑ گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |