دکھاتے ہیں جو یہ صنم دیکھتے ہیں

دکھاتے ہیں جو یہ صنم دیکھتے ہیں
by واجد علی شاہ

دکھاتے ہیں جو یہ صنم دیکھتے ہیں
خدا کی خدائی کو ہم دیکھتے ہیں

یہ حیوان ہے دست طالع پہ بھاری
نئے جانور کا قدم دیکھتے ہیں

زن و خویش و فرزند و دولت سے چھوٹے
نہ دیکھے کوئی جو کہ ہم دیکھتے ہیں

شہنشاہ ہم ہیں دلوں پر ہیں حاکم
گدا تم کو اے ذی حشم دیکھتے ہیں

فقط ہاتھ کالے نہیں بلکہ منعم
دلوں پر بھی داغ ورم دیکھتے ہیں

کہاں تک اترتی ہے سینے پہ میرے
تری تیغ ابرو کا دم دیکھتے ہیں

بھگاتی ہے مار سیہ گو کہ ہم کو
تری زلف مشکیں کا سم دیکھتے ہیں

زمیں پر بھی دیتا نہیں چین ہم کو
فلک تجھ سے جور و ستم دیکھتے ہیں

در اشک سے میرا بھرتی ہے دامن
سخی تجھ کو اے چشم نم دیکھتے ہیں

نہ رنج اور نہ شادی توسط ہے ہم کو
کہ عیش و الم بھی بہم دیکھتے ہیں

کسی ماہ نے اس کو دھوکا دیا ہے
ہم اخترؔ کو کیوں پر الم دیکھتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse