دکھا دل بھی ٹکڑے جگر ہوتے ہوتے
دکھا دل بھی ٹکڑے جگر ہوتے ہوتے
ادھر بھی اٹھا درد ادھر ہوتے ہوتے
جوانی کا جوبن ڈھلا دن کی صورت
زوال آ گیا دوپہر ہوتے ہوتے
دل نامراد اک ہزار آرزوئیں
اسے چاہئے عمر بھر ہوتے ہوتے
نہانے میں زنجیر پا طوق گردن
بنے حلقہ حلقہ بھنور ہوتے ہوتے
وہ جا اپنے پہلو میں دے ہی یہ مشکل
جو ہوگا بھی تو دل میں گھر ہوتے ہوتے
حرم جاتے جاتے گئے میکدے میں
ادھر ہو گئے شادؔ ادھر ہوتے ہوتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |