دیکھا ادھر کسی نے ادھر میں نے آہ کی
دیکھا ادھر کسی نے ادھر میں نے آہ کی
تڑپا رہی ہے قلب کو بجلی نگاہ کی
بن آئے پھر تو حشر میں ہر عذر خواہ کی
دو اپنے ہاتھ سے جو سزا تم گناہ کی
اب میں یوں ہی لحد میں بھی بدلوں گا کروٹیں
میرا تو دم نکلتا تھا کیوں تم نے آہ کی
سمجھے نہ بچپنے سے کہ کس پر پڑے گا تیر
آئینہ دیکھنے میں بھی ترچھی نگاہ کی
اک اور بھی رفیق مرا چھوٹنے کو ہے
ہاتھوں سے دل پکڑ لیا جب میں نے آہ کی
وہ اور رخ پہ زلف کو بکھرائے آئے ہیں
تقدیر دیکھیے مرے روز سیاہ کی
میں مر گیا تھا خندۂ زخم جگر سے بھی
ظالم ہنسی میں جان گئی بے گناہ کی
کچھ آپ کا گلہ تھا نہ شکوہ عدو کا تھا
شرما کے کیوں حضور نے نیچی نگاہ کی
آنکھوں ہی میں رہے گا یہ صفدرؔ کا خون ہے
تم آئنے میں دیکھو تو سرخی نگاہ کی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |