دیکھتے سجدے میں آتا ہے جو کرتا ہے نگاہ
دیکھتے سجدے میں آتا ہے جو کرتا ہے نگاہ
تیرے ابرو کی ہے محراب مگر بیت اللہ
یک پلک میں وہ کرے پیس کے فوجیں سرمہ
جس طرف کو پھرے ظالم تری مژگاں کی سپاہ
بیت بحثی نہ کر اے فاختہ گلشن میں کہ آج
مصرع سرو سے موزوں ہے مرا مصرع آہ
کشور عشق کی شاہی ہے مگر مجنوں کو
کہ زمیں تخت ہے سر پر ہے بگولے کی کلاہ
کیوں کر ان کالی بلاؤں سے بچے گا عاشق
خط سیہ خال سیہ زلف سیہ چشم سیاہ
چاہتا ہے شب زلفاں کی تری عمر دراز
کہ مرے عشق کا ہووے نہیں قصہ کوتاہ
کیا کہے کیونکہ کہے تجھ سے یہ حاتمؔ غم دل
کہ وہ ہے شرم سے محجوب و تو ہے بے پرواہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |