دیکھنا وہ گریۂ حسرت مآل آ ہی گیا
دیکھنا وہ گریۂ حسرت مآل آ ہی گیا
بیکسی میں کوئی تو پرسان حال آ ہی گیا
جرأت عرض تمنا کا سبب وہ خود ہوئے
مہرباں دیکھا انہیں لب پر سوال آ ہی گیا
دل کو ہم کب تک بچائے رکھتے ہر آسیب سے
ٹھیس آخر لگ گئی شیشے میں بال آ ہی گیا
بے وفائی سے وفا کا دیتے وہ کب تک جواب
دل ہی تو ہے رفتہ رفتہ انفعال آ ہی گیا
خود فراموشی کی لذت نامکمل رہ گئی
باوجود بے خودی تیرا خیال آ ہی گیا
ایک مدت سے نہیں ملتا تھا وحشتؔ کا پتا
لے ترے کوچے میں وہ آشفتہ حال آ ہی گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |