دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا

دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا
by ولی دکنی

دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا
ہے مطالعہ مطلع انوار کا

بلبل و پروانہ کرنا دل کے تئیں
کام ہے تجھ چہرۂ گل نار کا

صبح تیرا درس پایا تھا صنم
شوق دل محتاج ہے تکرار کا

ماہ کے سینے اپر اے شمع رو
داغ ہے تجھ حسن کی جھلکار کا

دل کوں دیتا ہے ہمارے پیچ و تاب
پیچ تیرے طرۂ طرار کا

جو سنیا تیرے دہن سوں یک بچن
بھید پایا نسخۂ اسرار کا

چاہتا ہے اس جہاں میں گر بہشت
جا تماشا دیکھ اس رخسار کا

آرسی کے ہاتھ سوں ڈرتا ہے خط
چور کوں ہے خوف چوکیدار کا

سرکشی آتش مزاجی ہے سبب
ناصحوں کو گرمئ بازار کا

اے ولیؔ کیوں سن سکے ناصح کی بات
جو دوانا ہے پری رخسار کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse