دیکھیے خاک میں مجنوں کی اثر ہے کہ نہیں
دیکھیے خاک میں مجنوں کی اثر ہے کہ نہیں
دشت میں ناقۂ لیلیٰ کا گزر ہے کہ نہیں
وا اگر چشم نہ ہو اس کو نہ کہنا پی اشک
یہ خدا جانے صدف بیچ گہر ہے کہ نہیں
ایک نے مجھ کو ترے در کے اپر دیکھ کہا
غیر اس در کے تجھے اور بھی در ہے کہ نہیں
آخر اس منزل ہستی سے سفر کرنا ہے
اے مسافر تجھے چلنے کی خبر ہے کہ نہیں
توشۂ راہ سبھی ہم سفراں رکھتے ہیں
تیرے دامن میں فغاںؔ لخت جگر ہے کہ نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |