دیکھ لو تم خوئے آتش اے قمر شیشہ میں ہے

دیکھ لو تم خوئے آتش اے قمر شیشہ میں ہے (1900)
by حبیب موسوی
324731دیکھ لو تم خوئے آتش اے قمر شیشہ میں ہے1900حبیب موسوی

دیکھ لو تم خوئے آتش اے قمر شیشہ میں ہے
عکس داغ مہر کا اتنا اثر شیشہ میں ہے

لوگ کہتے ہیں ترے رخسار تاباں دیکھ کر
شمع ہے فانوس میں یا آب زر شیشہ میں ہے

رات دن رہتی ہے نیت بادۂ گل رنگ میں
یہ پری وہ ہے کہ جو آٹھوں پہر شیشہ میں ہے

ساعد سیمیں سے تیرے اس کو کیا نسبت بھلا
توبہ توبہ کب لطافت اس قدر شیشہ میں ہے

ہوتی ہے غرق عرق کیوں تو سوائے بوئے گل
اور کیا اے بلبل شوریدہ سر شیشہ میں ہے

مے کدہ تیرا رہے آباد خم کی خیر ہو
ہاں پلا دے مجھ کو ساقی جس قدر شیشہ میں ہے

خاک سے میری بھلا کیا وقت کا ہو امتیاز
ہر گھڑی بن کر بگولا منتشر شیشہ میں ہے

یہ گماں ہوتا ہے عکس مہر صہبا دیکھ کر
داغ الفت کو لئے خون جگر شیشہ میں ہے

حضرت واعظ نہ ایسا وقت ہاتھ آئے گا پھر
سب ہیں بے خود تم بھی پی لو کچھ اگر شیشہ میں ہے

کھنچ سکے ہرگز مصور سے نہ تمثال عدم
دیکھ لو تصویر جاناں تا کمر شیشہ میں ہے

تھوڑی تھوڑی راہ میں پی لیں گے گر کم ہے تو کیا
دور ہے مے خانہ یہ زاد سفر شیشہ میں ہے

مے پلا کر مجھ سے کہتے ہیں وہ ہو کر بے حجاب
چڑھ گئی آنکھوں پہ جب عینک نظر شیشہ میں ہے

کیوں نہ زور طبع سب احباب دکھلائیں حبیبؔ
امتحان حسن نظم یک دگر شیشہ میں ہے


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.