دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا

دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا
by عزیز لکھنوی
317966دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہوناعزیز لکھنوی

دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا
وہ مرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا

قابل دید ہے اس گھر کا بھی ویراں ہونا
جس کے ہر گوشہ میں مخفی تھا بیاباں ہونا

جی نہ اٹھوں گا ہے بیکار پشیماں ہونا
جاؤ اب ہو چکا جو کچھ تھا مری جاں ہونا

واہمہ مجھ کو دکھاتا ہے جنوں کے ساماں
نظر آتا ہے مجھے گھر کا بیاباں ہونا

اف مرے اجڑے ہوئے گھر کی تباہی دیکھو
جس کے ہر ذرہ پہ چھایا ہے بیاباں ہونا

حادثے دونوں یہ عالم میں اہم گزرے ہیں
میرا مرنا تری زلفوں کا پریشاں ہونا

الحذر گور غریباں کی ڈرونی راتیں
اور وہ ان کے گھنے بال پریشاں ہونا

رات بھر سوز محبت نے جلایا مجھ کو
تھا مقدر میں چراغ شب ہجراں ہونا

کیوں نہ وحشت میں بھی پابند محبت رہتا
تھا بیاباں میں مجھے قیدئ زنداں ہونا

ہوگا اک وقت میں یہ واقعۂ تاریخی
یاد رکھنا مرے کاشانے کا ویراں ہونا

کچھ نہ پوچھو شب وعدہ مرے گھر کی رونق
اللہ اللہ وہ سامان سے ساماں ہونا

جوش میں لے کے اک انگڑائی کسی کا کہنا
تم کو آتا ہی نہیں چاک گریباں ہونا

ان کی اس کوشش بے حد کا پتہ دیتا ہے
چارہ سازوں کا مرے لاش پہ گریاں ہونا

عالم عشق کی فطرت میں خلل آتا ہے
مان لوں حضرت ناصح کا گر انساں ہونا

سرخ ڈوری تری آنکھوں کی الٰہی توبہ
چاہیئے تھا انہیں پیوست رگ جاں ہونا

ہو چلیں آپ کے بیمار کی آنکھیں بے نور
قہر تھا صبح کے تارے کا نمایاں ہونا

میں کروں ضبط ادھر ان کو پسینہ آئے
چاہئے یوں غم پنہاں کو نمایاں ہونا

اللہ اللہ یہ سلیقہ ترا اے شعلۂ طور
کس طرح تو نے چھپایا ہے نمایاں ہونا

ان سے کرتا ہے دم نزع وصیت یہ عزیزؔ
خلق روئے گی مگر تم نہ پریشاں ہونا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.