ذوق سرمستی کو محو روئے جاناں کر دیا
ذوق سرمستی کو محو روئے جاناں کر دیا
کفر کو اس طرح چمکایا کہ ایماں کر دیا
تو نے یہ اعجاز کیا اے سوز پنہاں کر دیا
اس طرح پھونکا کہ آخر جسم کو جاں کر دیا
جس پہ میری جستجو نے ڈال رکھے تھے حجاب
بے خودی نے اب اسے محسوس و عریاں کر دیا
کچھ نہ ہم سے ہو سکا اس اضطراب شوق میں
ان کے دامن کو مگر اپنا گریباں کر دیا
گو نہیں رہتا کبھی پردے میں راز عاشقی
تم نے چھپ کر اور بھی اس کو نمایاں کر دیا
رکھ دیے دیر و حرم سر مارنے کے واسطے
بندگی کو بے نیاز کفر و ایماں کر دیا
عارض نازک پہ ان کے رنگ سا کچھ آ گیا
ان گلوں کو چھیڑ کر ہم نے گلستاں کر دیا
ان بتوں کی صورت زیبا کو اصغرؔ کیا کہوں
پر خدا نے وائے ناکامی مسلماں کر دیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |