رات بھر گردش تھی ان کے پاسبانوں کی طرح

رات بھر گردش تھی ان کے پاسبانوں کی طرح
by بیخود دہلوی

رات بھر گردش تھی ان کے پاسبانوں کی طرح
پانو میں چکر تھا میرے آسمانوں کی طرح

دل میں ہیں لیکن انہیں دل سے غرض مطلب نہیں
اپنے گھر میں رہتے ہیں وہ مہمانوں کی طرح

دل کے دینے کا کہیں چرچا نہ کرنا دیکھنا
لے کے دل سمجھا رہے ہیں مہربانوں کی طرح

نام پر مرنے کے مرتے ہیں مگر مرتے نہیں
کون جی سکتا ہے ہم سے سخت جانوں کی طرح

دل جو کچھ کہتا ہے کرتے ہیں وہی بیخودؔ مگر
سن لیا کرتے ہیں سب کی بے زبانوں کی طرح

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse