رات کرتا تھا وہ اک مرغ گرفتار سے بحث

رات کرتا تھا وہ اک مرغ گرفتار سے بحث
by غلام علی ہمدانی مصحفی
316345رات کرتا تھا وہ اک مرغ گرفتار سے بحثغلام علی ہمدانی مصحفی

رات کرتا تھا وہ اک مرغ گرفتار سے بحث
میں بھی تا صبح رکھی بلبل گل زار سے بحث

نو بہاراں میں وہ ہو جاوے ہے کیوں سرخ مگر
داغ دل کو ہے مرے لالۂ کہسار سے بحث

طالب علم محبت جو میں تھا طفلی میں
تھی نت آنکھوں کی مرے حسن رخ یار سے بحث

صلح کل میں مری گزرے ہے محبت کے بیچ
نہ تو تکرار ہے کافر سے نہ دیں دار سے بحث

سو زباں گو ہوئیں منہ میں ترے اے غنچۂ گل
تجھ کو لازم نہیں کرنا مری منقار سے بحث

شیوہ ہر چند کہ اپنا نہیں طالب علمی
تو بھی موجود ہیں ہم کرنے کو دو چار سے بحث

یوں ہوئی ہار گلے کا مرے وہ نرگس مست
جوں کرے راہ میں کوئی کسی ہشیار سے بحث

ہوں وہ دیوانہ کہ اک شب بھی جو میں گھر میں رہوں
رات کو صبح کروں کر در و دیوار سے بحث

عقل کل نے نہیں الزام دیا اس کو حسود
دور ہو، کر نہ عبث مصحفیؔ زار سے بحث


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.