رات کی بات
چوڑیاں بجتی ہیں چھاگل کی صدا آتی ہے
فرط بیتابی سے اٹھ اٹھ کے نظر بیٹھ گئی
تھام کر آس ہر آہٹ پہ جگر بیٹھ گئی
میرا غم خانہ عبارت رہا تاریکی سے
موج مہتاب کہاں خاک بہ سر بیٹھ گئی
شبنم آلود ہوا جاتا ہے شب کا داماں
تارے چمکے ہیں کہ اب گرد سفر بیٹھ گئی
بھیگتی رات نہا کر مرے اشک خوں میں
جانے کو اٹھی ہی تھی اٹھ کے مگر بیٹھ گئی
اس نے دیکھا کہ مری رانی لجاتی آئی
آنکھیں ملتی ہوئی فتنوں کو جگاتی آئی
سر سے ڈھلکا ہوا آنچل شکن آلود لباس
چھڑی آنکھوں میں مچلتی ہوئی نیندوں کی جھلک
سو گئی تھی ذرا خود سب کو سلاتے شاید
نیند کچی تھی کہ دی وعدے نے دل پر دستک
چونک کر اٹھی تو دیکھا کہ ستارے بن کر
اوج افلاک پہ ہے مانگ کی افشاں کی دمک
شیشۂ مہ سے چھلک کر مئے تند و بے درد
اس کے ماتھے سے چرا لیتی ہے سونے کی ڈلک
چوڑیاں ہاتھوں میں تھامے چلی ہولے ہولے
کر دے غمازی مبادا کہیں چھاگل کی چھنک
سرخی ٹیکے کی جبیں پر ذرا پھیلی پھیلی
جس طرح جام سے کچھ تھوڑی سی مے جائے چھلک
"زلفیں یوں چہرے پہ بکھری ہوئی مانگیں تھیں دل
جس طرح ایک کھلونے پہ مٹیں دو بالک"
جس طرح غم خانے پہ پہنچی تو کچھ آیا جو خیال
چوڑیاں چھوڑ دیں چھاگل بھی ہنسی چھانا چھنک
فکر ہے آئی تو ہے نیند کی گوماتی ہے
چوڑیاں بجتی ہیں چھاگل کی صدا آتی ہے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |