راحت کہاں نصیب تھی جو اب کہیں نہیں

راحت کہاں نصیب تھی جو اب کہیں نہیں
by برجموہن دتاتریہ کیفی

راحت کہاں نصیب تھی جو اب کہیں نہیں
وہ آسماں نہیں ہے کہ اب وہ زمیں نہیں

ہو جوش صدق دل میں تو راحت بغل میں ہو
قائم یہ آسمان رہے یا زمیں نہیں

حب وطن کو ہمت مردانہ چاہیئے
درکار آہ سینۂ اندوہ گیں نہیں

خون دل و جگر سے اسے سینچ اے عزیز
کشت وطن ہے یہ کوئی کشت جویں نہیں

حق گوئی کی صدا تھی نہ رکنی نہ رک سکی
کب وار کی سنانیں گلوں میں چبھیں نہیں

داغ غم وطن ہے نشان عزیز خلق
دل پر نہ جس کا نقش ہو یہ وہ نگیں نہیں

جنگ وطن میں صدق کے ہتھیار کا ہے کام
درکار اس میں اسلحۂ آہنیں نہیں

گھر بار تیرا پر تو کسی چیز کو نہ چھیڑ
یہ بات تو حریفوں کی کچھ دل نشیں نہیں

جس بات پر عزیز اڑے ہیں اڑے رہیں
کہنے دیں ان کو اونچے گلے سے نہیں نہیں

کیا جانے دل جگر کو مرے جو یہ کہہ گیا
دامن بھی تار تار نہیں آستیں نہیں

معبود ہے وطن ہوں پرستار اسی کا میں
دیر و حرم میں جو جھکے یہ وہ جبیں نہیں

کیفیؔ اسی سے خیریت ہند میں ہے دیر
حب وطن کا جوش کہیں ہے کہیں نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse